سلیم جانی کون تھا؟ سلیم کا تعلق ٹنڈوالہ یار کے گاؤں کیھڑ خان لونڈ گاؤں سے تھا، سلیم باء کاسٹ لونڈ بلوچ تھا۔ میری پہلی ملاقات سلیم سے جنوری 2015 میں ہوئی جب میں اپنے اسکول شاھنواز راجپوت میں جواننگ کرنے کے لئے جا رہا تھا، تو میری نظر راستے میں روڈ کے کونے میں بیٹھے ہوئے سلیم پے پڑی اس کا مایوس چہرا دیکھ کے میں رک گیا بائیک روک کے اس ملنے کے لئے گیا تو وہ گھبرا گیا ، وہ احساس کمتری شکار تھا،جس کی وجے سے وہ نئے لوگوں سے گھبرایا جاتا تھا، دعا سلام کرنے بعد پتا چلا وہ روز وہاں آکے بیٹھتا ہے پھر روز میری ملاقات سلیم سے ہوتی تھی پہر ہماری دوستی ہوگئی💞۔ ایک دن سلیم کو مینے بولا چلو میرے ساتھ اسکول تو سلیم نے منع کردیا کافی سمجھانے کے بعد یے آخر کار سلیم راضی ہوگیا ۔اور میں سلیم کو لیکےاسکول آیا تو اسکول کے بچے سلیم کو تعجب سے دیکھنے لگے کچھ بچے ہنس رھے تھے تو کچھ ڈر رہے تھے، پھر آہستہ آہستہ ماحول بن گیا، اسکول کے بچوں سے سلیم کی طبیعت بھی گل مل گئی۔اسکول میں سلیم تعلیم تو اتنی خاص حاصل ن کر پایا۔ پر معاشرے میں کس طرح چلنا ہے بڑوں سے دوستوں سے کسی طرح پیش آنا ہے وہ سیکھ گیا ۔پھر آہستہ آہستہ سلیم کو اپنے ساتھ میچوں میں لیکے جانے لگا ، وہاں کرکٹرز اور میرے تمام دوست سلیم سے بڑے پیار سے خوش ہوکے ملتے تھے ۔ آخرکار سلیم کو اپنے آپ سے لگاؤ ہونے لگا، وہ اپنے آپ کو اچھا بناکے چلنے لگا ۔وہ جان گیا تھا بیشک اللہ کی بنائی کوئی بھی چیز بیکار نھی ہوتی بس کمی پیشی ہے تو وہ ہمارے اخلاق اور روئیوں میں ہے، سلیم بہت پیاری اور میٹھی زبان بولتا تھا خوش تھا۔ ہر کسی سے پیار اور عاجزی سے مسکرا کے ملتا تھا ۔ سلیم نے اپنے کافی اچھے دوست بھی بنا لئے تھے، جو اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور پھر میں بھی سلیم سے متمعن ہوگیا ۔ سلیم میرے ہر دکھ سکھ کا ساتھی تھا، کہیں بھی جاتے تھے تو ساتھ جاتے تھےہم نے بڑے بڑے خوبصورت سفر ساتھ میں کئے ۔۔۔۔۔۔پھر اچانک سلیم کی طبیعت خراب ہوگئی گردے میں پتھری کی وجہ سے درد ہوا جس کی وجے سے ہاسپیٹل میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ خون کی کمی اور کمزوری کی وجہ سے آپریشن نھی ہو پایا ۔ کافی دن ہاسپیٹل میں رہنے کے بعد طبیعت میں بھتری بھی آئی ، چھٹی بھی مل گئی تھی پھر کچھ ٹائیم بعد اچانک پھر سے طبیعت خراب ہوگئی پھیپڑوں میں پانی بھرگیا ہاسپیٹل میں کچھ دن رھنے کے بعد سلیم اپنے خالق حقیقی سے جا ملا،۔۔۔۔۔۔۔🥲سلیم مجھے اپنے بیٹوں جیسا عزیز تھا، سلیم سچا مخلص دوست تھا ہر کسی کو دعائیں دیتا تھا، بس ہمارا سفر سلیم کے ساتھ اتنا ئی تھا، دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو سلیم جانی کے لئے دعا کرنا ۔ اللہ پاک سلیم کے درجات بلند فرمائے آمین اور آخر میری آپ سب سے ایک گزارش ہے۔ ہمارے آس پاس اور بھی بہت سارے درویش صفت ملنگ انسان گھوم رہیں ہیں۔ جو ہماری توجہ اور پیار کے منتظر ہیں اگر ھم ان سے پیار سے پیش آئیں اور تھوڑی سی بھی توجہ دیں تو یقیناً ان کے اندر سے احساس کمتری ختم ہوجائے گی۔ اور وہ جینا سیکھ جائیں گے ۔۔۔۔ شاھجھان میرجت